پل فولکیه جدلیات کی میگزین کے دوسرے حصے میں هراکلیٹ کا فلسفهِ اصل تناقض اور هیگل کے نظریے کو یکساں قرار دیتے هوئے کهتا هے:“هراکلیٹ ساتھ هی ساتھ تناقض کا فلسفی بھی هے ۔ وه کهتا هے[۹۱]:
هم هیں اور نهیں بھی ۔ وه خصوصاً طبیعت کے اندر ضدین میں پیش آنے والی جنگ و جدل کی تائید کرتا هے۔ اور اسے هم آهنگی اور توافق کے حصول کے لئے ضروری سمجھتا هے: ضدین آپس میں توافق کرتے هیں اور مختلف انداز سے بهترین موسیقی ایجاد هوتی هے یه سب جنگ و جدل سے وجود میں آتی هے …۔ طبیعت تناقضات کو چاهتی هے اور هم آهنگی اور توافق کو انهی کے ذریعے جنم لیتی هے نه که مشابه موجودات کے ذریعے ۔ مثلا جنس نر کو جنس ماده کے ساتھ جمع کیا جاتا هے اور دو هم جنس آپس میں جمع نهیں هوتے اسی طرح ابتدائی توافق دو مخالف جنسوں کے ذریعے حاصل هوتی هے نه که دو مشابه جنسوں کے ذریعے۔ هنر بھی طبیعت کی تقلید کرتے هوئے اسی طرح عمل کرتا هے ۔ ڈرائینگ میں سفید، سیاه ، زرد اور سرخ رنگ آپس میں مخلوط هوتے هیں اس طرح پهلی تصویر کے ساتھ مشابهت
دوسرے لفظوں میں پهلی بنیاد کی ارتقاء میں تیسری بنیاد تک پهنچنے کی طرف محتاج نهیں هے۔ (۱)
حاصل هوتی هے۔موسیقی میں بھی دھیمی ، اونچی ، بلند اور چھوٹی آوازیں آپس میں ترکیب پاتے هیں اور مختلف نغمے وجود میں لاتی هیں تاکه ایک هی موسیقی حاصل هو جائے۔ صرف اور نحو بھی با آواز اور بے آواز حروف کی ترکیب سے تشکیل پاتے هیں۔ هراکلیٹ جو مغلق نویسی، فکری الجھن اور سنگینی میں مشهور هے ،بھی اس کا قائل هے اور کهتاهے : وحدت کامل اور ناقص ، توافق اور عدم توافق، هم آهنگ اور ناهم آهنگ چیزوں سے وجود میں آتی هے۔ ایک، تمام چیزوں سے اور تمام چیزیں ایک سے باهر آتی هیں ۔[۹۲]
(۱) طبیعت میں ارتقاء کے جدلیاتی قانون پر جو اعتراضات کر سکتے هیں مختلف جهت سے هیں:
الف) ضد اپنے ضد کو جنم دینے کے لحاظ سے اور یه که آیا هر تصور اور حالت اپنی ضد کی طرف تمائل رکھتی هے؟
ب) طبیعت اپنی تثلیثی سفر کے لحاظ سے اور یه که آیا طبیعت همیشه ایک ضد سے دوسرے ضد کی طرف اور اس سے ان دونوں کی ترکیبی حالت کی طرف سفر کرتی هے اور هر چیز دو اضداد سے مرکب هے جو ان سے پهلے کے دو مرحلوں میں گذر گئے هیں؟
ج) مثلث “تز، اینٹی تز، سنتز” کے لئے هیگل کی تعبیر کے لحاظ سے جسے اس نے “اثبات، نفی ، نفی در نفی” کی صورت میں بیان کیا هے اور “اصل تناقض “ کی بنیاد پر اس کی بنا رکھی هے یعنی اس جهت سے که آیا هر مرحلے کی ماهیت پهلے مرحلے کی نسبت نفی اور معدوم هے یا هر مرحلے کا معدوم هونا پهلے یا بعد کے مرحلے کی نسبت صرف ایک فرض کے علاوه کچھ نهیں هے اور تمام مرحلوں کی ماهیت اثباتی هے؟
د) اس جهت سے که آیا ارتقاء تین ارکان پر استوار هے یا ارتقاء کی دو ارکان کےذریعے بھی توضیح دی جاسکتی هے؟ پهلا اعتراض جو متن میں بیان هوا هے هیگل کی مثلث کے بارے میں جو تعبیرهے جس میں دوسرے رکن کی ماهیت کو پهلے رکن کی نفی اور تیسرے رکن کی ماهیت کو مرکب کی نفی سمجھاجا تا هے، پر وارد هے۔ اعتراض کا خلاصه یه هے که نفی اور عدم ایک ذهنی فرض هے نه ایک خارجی واقعیت ۔
۲ ) یه قانون صحیح طور پر مرتب نه هونے اسی طرح اضافی چیزوں پر مشتمل هونے کے علاوه غلط بھی هے۔ کیونکه یه قانون حوادث کے سلسلوں میں جاری تینوں مرتبوں میں سے هر ایک میں مرتبه اول کے ارتقاء کے تحقق کو مرتبه دوم سے نفی کرکے تیسرے مرتبے کے هاتھ تھمادیتا هے حالانکه جیسا که هم نے بیان کیا ارتقائی عمل دوسرے مرتبے میں وجود میں آتا هے اور تیسرے مرتبے کی طرف محتاج هی نهیں هے۔ علاوه براین، شعوری طور پر بھی پاتے هیں که چوزا (ان کی اپنے ذکر کرده مثالوں میں سے ایک میں)خود انڈ ےکا ارتقاء یافته هے اور انڈا اپنے ارتقاء میں مرغی کا محتاج نهیں هے[۹۳]بلکه مرغی انڈے کے لئے کمال بالائے کمال هے ۔(۱)
جو چیز دوسرے مرحلے میں عدم محسوب هوتی هے خود ایک اثبات هے اور واقع میں پے در پے اثبات کے علاوه کچھ نهیں هے۔ عدم ایک واقعی عنصر نهیں هے که هم کسی واقعیت کو فرض کریں که اس میں تبدیل هوا هے یا اس کا کسی اور چیز سے مرکب هونے سے ایک حقیقت یا واقعیت تشکیل پائی هے۔ البته یه اعتراض اس نظریے کی بنا پر هے که اگر “شدن” کو جمع نقیضین سمجھا جائے۔
(۱) یه اشکال[۹۴] اس بات کی طرف اشاره هے که اس فرض کے ساتھ که هم قبول کریں که طبیعت میں پائی جانے والی تغییراتی لهر مثلث کی بنیاد پر هے ، ارتقاء کا تحقق اس سے وابسته نهیں هے کہ هر تین مرحلے گذر جائیں بلکه دوسرے مرحلے کے تحقق پانے کے بعد ارتقاء کی حقیقت حاصل هوگئی هے اور تیسرا مرحله دوسرے مرحلے کا ارتقاء هے ۔ یه اشکال ، اشکال اول پر مبنی هے که مرحله دوم صرف نفی نهیں هے بلکه ایک ایسا اثبات هے جو اپنے اندر مرحله اول کے اثبات کے ساتھ ایک اضافی چیز بھی رکھتا هے۔
گویا ان سائنسدانوں نے اس مشکل کی پیشن گوئی کی تھی اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کها هے که جس طرح اگر اثبات کو نقطه آغاز لیا جائے تو باقی کے دونوں مراتب کو اپنے همراه لے آتا هے اور اگر دوسرے مرتبے کو بھی اثبات لیاجائے تو باقی کے دونوں مراتب کو اپنے پیچھے لے آتا هے نتیجے میں نفی (پایه دوم) بھی ارتقاء کا کچھ حصه اپنے همراه رکھتا هے۔
لیکن یه ایک بے هوده ارتقاء هے کیونکه یه اس حقیقت کو که مرتبه دوم مرتبه اول کا ارتقاء یافته هے ، توضیح نهیں دیتا هے۔
۳ – مذکوره قانون صحیح اور کامل هونے کے فرض پر جهانِ هستی کے صرف کچھ حصوں یعنی مادی مرکبات مانند نباتات ، حیوانات، انسان اور ان کے متعلقات میں قابل اجراء هےاور ان میں ارتقائی عمل کی وضاحت کرتا هے۔ لیکن بسیط چیزوں اور انفرادی حرکات جن کے مجموعے سے ایک مرکب وجود میں آتا هے ، قابل اجراء نهیں هے، مثلا ایک مختصر مکانی حرکت کو فرض کریں ان سائنسدانوں کے مطابق یه حرکت، مکانی نقاط میں جو ایک دوسرے کے پهلو میں موجود هیں آپس میں هرگز وحدت اوراتصال نهیں رکھتے هیں ۔ ان تین مفروضه مکانی نقاط میں سے دوسرا اول کا نفی کرتاهے لیکن تیسرا پهلے اور دوسرے کے نفی اور اثبات کا مجموعه نهیں هوسکتا کیونکه یه فرض بساطت کے فرض کے منافی هے۔(۱)
اگر هم فلسفی تعبیر میں مطلب کو بیان کرنا چاهیں تو ضروری هے که هم کهیں که هر پهلا مرتبه بعد کے مرتبه کا قوه هے اور هر بعد کا مرحله پهلے مرحلے کی فعلیت هے ۔ موجود کو قوه کے مرحلے سے فعلیت کے مرحلے کی طرف انتقال دینا بعینه ارتقاء هے۔ پس ارتقائی عمل دو بنیادی چیزوں پر مشتمل هے جن کی ماهیت اور حقیقت قوه اور فعل هے نه اثبات اور نفی۔ یه اشکال بھی اس بنیاد پر هے که هم “شدن” کو جمع نقیضین جانیں نه اس جهت سے که اشیاء اپنے اندر موجود متضاد توانائیوں سے تشکیل پاتی هیں۔
(۱) یه اشکال اصل قانون مثلت”تز، اینٹی تز، سنتز” پر وارد هے خواه اس قانون کو هیگل کی طرح تناقض کی بنیاد پر اور وجود اور عدم سے مرکب فرض کریں یا سلیلنگ اور فیچته کی مانند تینوں مراحل کو اثباتی فرض کریں۔
ممکن هے یه سائنسدان حضرات کهیں که همارا فلسفه خارجی واقعیت کے شانه بشانه چلتا هے اور خارجی واقعیت میں هم صرف بسیط حرکات نهیں رکھتے هیں۔ جو بھی هے بسائط کا اجتماع ، فعل اور ان کے انفعال کی پیداوار هے۔
اعتراض کا خلاصه یه هے که طبیعت میں کار فرما تثلیثی لهر (جریان ) صحیح هونے کے فرض پر یه قانون صرف مرکبات میں قابل اجراء هے ۔ ایک مرکب کے بارے میں کهه سکتے هیں که یه دو اضدادسے مرکب هوا هے لیکن بسیط کے بارے میں ترکیب کا فرض اور یه که اس کی حقیقت اور ماهیت دو اضداد کے اجتماع سے عبارت هے ، غلط هے۔ دوسری طرف بسیط عنصریابسیط حرکت کے وجود سے بھی انکار نهیں کیا جا سکتا کیونکه اگر بسیط نه هو تو مرکب بھی معرض وجود میں نهیں آسکتا هے۔
ممکن هے یهاں یه کها جائے که یه اعتراض صرف هیگل سے پهلے والوں کی تعبیر پر جو تینوں مرحلوں کو اثباتی تصور کرتے هیں ، وارد هے لیکن هیگل کے اوپر یه اعتراض وارد نهیں هے ۔ هیگل کے نظریے کی بنا پر هر بسیط اور مفرد حرکت بھی “اثبات ، نفی ، نفی در نفی” کے مراحل کی حامل هے اور اس جهت سے مرکب کے ساتھ کوئی فرق نهیں رکھتی۔ اگر هیگل کے نظریے پر کوئی اعتراض هے تو وهی پهلے والا اعتراض هے نه که یه اعتراض ۔
جواب یه هے که اگر هیگل اور اس کے پیروکار حرکت کو ایک متصل اور ممتد چیز مانیں تو یه اشکال صحیح هے، لیکن اگر جیسا که متن میں آیا هے حرکت کو- مثلا بسیط مکانی حرکت- مکان کے باریک دانوں کا ایک سلسله جو ایک دوسرے کے پهلو میں ترتیب دئے گئے هیں، جان لیں تو دوسرا مرحله پهلے کا نفی هوسکتا هے لیکن تیسرا ان دونوں کا مرکب نهیں هوسکتا۔
مثلث “تز، اینٹی تز، سنتز” اس معنی میں که شئ ایک مخصوص حالت سے اپنی ضد کی طرف متمائل هو اور بعد کے مرحلے میں ایک متوازن اور ترقی یافته حالت جو ضد اولی اور ضدثانی کے اجزاء پر بھی مشتمل هو اور ساتھ ساتھ ان دونوں سے بلند سطح پر بھی قرار پائے تو یه ایک ایسا مطلب هے جو کسی حد تک صحیح هے لیکن ایک عمومی اور فلسفی قانون کے طور پر نهیں جو تمام اشیاء منجمله بسیط، مرکب، ماده اور فکر کو شامل کریں اور نه ایک دائمی امر کی صورت میں که وه متوازن اور ترقی یافته حالت بھی الزامی طور پر اپنی ضد کی طرف متمائل هو جائے اور ایک عالی مرحله کو طے کرے اور یه سلسله بے انتها اسی طرح جاری رهے ۔
لیکن یه بات ان کو کوئی فائده نهیں پهنچاتی هے کیونکه یه قانون بهت سارے مرکبات ، مانند وه مرکبات جن کے تحول اور ارتقاء کا سفر تقریباً یکساں هوتا هے، میں بھی جاری هوتا هے طبیعی کائنات اس کی واضح ترین مثال هے کیونکه خود یهی سائنسدان حضرات گواهی دیتے هیں که طبیعی کائنات، کمی بیشی کی قابلیت نه رکھنے والی توانائیوں کا ایک مجموعه هے جو اپنی ساخت کے هر گوشے میں مختلف صورتوں میں خود نمائی کرتی هے اور اس بنا پر هر گوشے میں وجود آنے والا هر جدید موجود “ارتقاء” کی شکل میں خودنمائی کرتا هے۔
مثلث “تز، اینٹی تز ، سنتز” بسائط بلکه مرکبات حقیقی جو ایک واقعی موجوداتی صنف کو تشکیل دیتے هیں اور اصطلاح میں ایک عمومی شکل رکھتے هیں جیسا که نباتی، حیوانی، اور انسانی اصناف ،میں جاری نهیں هے۔ انسان اپنی ترقی کے سفر میں ایسے پر پیچ و خم راستے طے نهیں کرتا هے اور انسان اپنے اندر ایسی متضاد توانائیاں جو ایسی حرکت تک منتهی هو نهیں رکھتا هے۔ یه مثلث “تز، اینٹی تز ، سنتز” صرف ایسے مرکبات میں قابل اجراء هے اور اس مرکب کے اجزاء ایک دوسرے کے اوپر متضاد اثرات رکھتے هوں جیسا که معاشره۔
یه تثلیثی سفر وهاں سے وجود میں آتا هے که اشیاء ایک دوسرے کے اندر متضاد اثرات رکھتی هوں اور ایک جهت سے آپس میں جنگ اور اختلاف کی حالت میں هوں اشیاء اپنی ابتدائی طبیعت کے حساب سے ایک مستقیم ترقییافته اور آرام سفر طے کرتی هیں اور ایک مخالف عامل کے ساتھ آمنا سامنا هونے کی وجه سے ایک متوسط اور متوازن حالت سے ایک انحرافی حالت کی طرف دھکیلی جاتی هیں لیکن ردعمل دکھاتے هوئے اس انحرافی حالت کی مخالف سمت میں حرکت کرتی هیں اور حد وسط سے گزر کر اس کے مقابل نقطے کی طرف جو اس کی ضد هے پهنچ جاتی هیں بار دیگر اسی ابتدائی انحرافی حالت کی طرف جسے متضاد توانائی نے پیدا کیا تھا پلٹ جاتی هیں لیکن اتار چڑھاؤ کے بعد پهلے سے بهتر حالت میں حدوسط میں قرار پاتی هیں کیونکه اتارچڑھاؤ کی حالت میں شئ کی ذاتی توانائیاں همیشه فعالیت کی حالت میں هوتی هیں۔
حقیقت میں طبیعی کائنات کے ایک گوشے میں موجود توانائیاں اپنے حدو اندازے کے مطابق دوسرے گوشوں کی توانائیوں سے استفاده کرتی هیں نتیجے میں همیشه دونوں طرف تساوی کی حالت میں باقی رهتی هے۔ اور کوئی ارتقاءوجود میں نهیں آتا۔
یه تثلیثی سفر چار عاملوں سے سرچشمه لیتا هے:
۱ – اشیاء کا ارتقاء اور صعودی سفر کی طرف فطری میلان۔
۲ – تضاد کی خصوصیات اور مخالف عوامل کے ساتھ آمنا سامنا۔
۳ – عمل اور ردعمل کا قانون۔
۴ – مخالف عوامل کے ساتھ آمنا سامنا هونے کی وجه سے اندرونی توانائیوں کا متحرک هونا۔
ایک اور مطلب جسے مخفی نهیں رهنا چاهئے وه یه هے که ضد کا اپنے ضد کو جنم لینے کا مسئله ممکن هے ایسی شکل میں هو که تثلیثی سلسلے تک منتهی نه هوجائے ۔ تثلیثی سلسله جیساکه بیان هوا اس مورد میں هے که شئ پر باهر سے کوئی مخالف عامل اثر انداز هوا هو اور ٹکراؤ یا اس پر توانائی وارد کرنے کے نتیجے میں اسے کسی سمت دھکیل دیا هو ، اور ردعمل کے طور پر متقابل حالت اس میں پیدا هوگئی هو اور آخر کار وه شئ “وضع مجامع” تک منتهی هوگئی هو ۔
لیکن طبیعت میں ایک اور لهر یا سلسله هے اگرچه کلی، عمومی اور فلسفی نهیں هے لیکن کچھ خاص موارد میں یه لهر اپنا اثر دکھاتی هے اس طرح اشیاء اپنی اضداد کو جنم لیتی هیں ۔ شاید قرآنی تعبیر اس کے بارے میں واضح اور روشن هو “ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهارِ وَ یُولِجُ النَّهارَ فِی اللَّیْلِ” (فاطر /۱۳) اور “ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَی” (یونس / ۳۱)
یه مطلب که ضد اپنی ضد کو جنم دیتی هے – البته اس معنی میں نهیں که یه کائنات کا ایک عمومی قانون هو اور تمام اشیاء کو شامل کرے اور ایک همیشگی اور لاینقطع سلسله هو- قدیم الایام سے بزرگان کا مورد توجه رها هے ۔
۴ – یه جو کهتے هیں “یه قانون کائنات کے چهرے سے پرده هٹاتے هوئے ایک نئے ظهور کی نشاندهی کرتا هے جس کے اندر متنافی وجود اورعدم اور متقابل اضداد هم آغوش هیں”۔
مولانا رومی نے کیا خوب کها هے:
با خود آمد گفت ای بحر خوشی ای نهاده هوش را در بیـــــهشی
خواب در بنهادهای بیـــداری ای بـستهای در بیدلی دلـــــدادهای
منعمی پنهان کنی در ذلّ فقــــر طوق دولت بندی اندر غلّ فقـــر
ضــــــد اندر ضد پنهان مندرج آتش اندر آب سوزان منـــــدمج
روضهای در آتش نمـــرود درج دخـلها رویان شده از بذل و خرج
میوه شیرین نهان در شاخ و بـرگ زندگی جاودان در زیــــــر مرگ
در عــدم پنهان شده موجودی ای در سرشت ساجــدی مسجودی ای
مولر و میدلتون (۱۹۹۴) با بهره گرفتن از مدل زنجیره ای مارکوف به این نتیجه رسیدند که می توان به نسبت تبدیل کاربری های مختلف و امکان پیش بینی آنها در آینده رسید. براون و همکاران (۲۰۰۱) با پیش بینی تغییرات کاربری، توانستند میزان گسترش و تخریب منابع را مشخص و این تغییرات را در مسیرهای مناسب هدایت کنند. تینگ وی ژانگ در تحقیقی تحت عنوان «نیروهای بازار زمین و نقش حکومت در پراکندگی» به بررسی پراکندگی در شهرهای چین و مقایسۀ آنها با شهرهای آمریکا پرداخته است. حاصل تحقیقات او این است که ۸/۵ میلیون هکتار اراضی کشاورزی از بین رفته یا تغییر کاربری داده، که از این مقدار یک پنجم آن در اثر الگوی گسترش افقی و پراکندگی در طی سالهای ۱۹۸۶ تا ۱۹۹۶ به زیر ساختارهای شهری رفته است. (Ting Wei Zhang,2000).جنرت و همکارن (۲۰۰۱) به منظور درک چگونگی تغییر چشم انداز بیابانها در مرکز آریزونا به واسطۀ گسترش مناطق شهری، به آنالیز مکانی مجموعه هایی از الگوی کاربری اراضی از سال ۱۹۱۲ تا ۱۹۹۵ پرداختند. نتایج گسترش مناطق شهری با نتایج افزایش جمعیت در این دوره مطابق بوده است. در این تحقیق، به منظور شبیه سازی تغییرات کاربری اراضی، از مدل Markov- cellular automata استفاده شد) Jenerette and all, 2001). الدین و الدراندالی در سال ۲۰۰۴ یک سیستم جدید را که در آن بکارگیری فرایند سلسله مراتبی تحلیل (AHP) از طریق کاربرد یک سیستم اطلاعات جغرافیایی(GIS)یکپارچه شده است را برای تعیین مکان بهینه به منظور یک تسهیلات خاص ارائه کردند.این سیستم دو ابزار اصلی AHP و GIS را در روش به کار می گیرد که دخالت کاربر را با عنصر دیگر و نیز سطح مهارت مورد نیاز برای کار با کامپیوتر را کاهش می دهد (الدین و الدراندلی ،۲۰۰۴).
حبیبی در سال ۱۳۸۰ با بهره گرفتن از GIS، توسعه کالبدی-فضایی شهر سنندج و روند الگوی توسعه شهری آن را بررسی کرد. وی برای شروع این تحقیق پنج فرض را در نظر گرفت: ۱٫ عوارض طبیعی و توپوگرافی در جهت دهی به توسعه فیزیکی شهر سنندج و تبدیل آن از الگوی قطاعی به الگوی کهکشانی همراه با خطی مؤثر بوده است. ۲٫ به نظر میرسد که بکارگیری ابزارهای تحلیلی GIS می تواند با در نظر گرفتن خصایص طبیعی، محیطی و انسانی الگویی مطلوب برای توسعه های شهری آینده این شهر ارائه نماید. ۳٫ روند فعلی توسعه شدید شهری سنندج ،باعث هجوم به روستاهای حاشیه شهر، پایانه حمل و نقل و فرودگاه و…. جذب و ادغام آنها در داخل مناطق شهری خواهد گردید. ۴٫ به نظر میرسد که مهاجرتهای روستایی و شهری (درون استانی) طی سالهای پس از انقلاب اسلامی باعث تشدید توسعه فیزیکی شهر سنندج گردیده است. ۵٫ طرحها و برنامه های رسمی (طرح جامع شهری و تفصیلی) نقش اساسی در توسعه فیزیکی شهر سنندج داشته است. بعد از انجام تحقیق، حبیبی به این نتیجه رسید که این فرضها صحت دارند. همچنین عوامل طبیعی، مرکزیت سیاسی، طرح های توسعه شهری اجرا شده را در توسعه فیزیکی شهر سنندج مؤثر دانسته است. و با تهیه لایه های اطلاعاتی متعددی مانند شیب، گسل، زمین شناسی، تناسب اراضی، خاک شناسی و … و تلفیق این لایه ها، با بهره گرفتن از مدل منطق فازی و مدل همپوشانی لایه ها، الگوی مناسب توسعه شهر را از طریق مکانیابی یک پهنه ۱۲ کیلومتر مربعی در شمال غرب سنندج ارائه داد.( حبیبی :۱۳۸۴، : توسعه کالبدی – فضایی شهر سنندج با بهره گرفتن از جی آی اس، انتشارات دانشگاه کردستان.)
طاهری در سال ۱۳۸۱ به ارزیابی الگوی توسعه فیزیکی شهر رامشیر از سالهای ۱۳۴۵ تا ۱۳۸۰ و ارائه الگوی مناسب توسعه آن پرداخت، وی پژوهش خود را با این فرضیات شروع کرد: ۱٫ الگوی توسعه فیزیکی شهر رامشیر بیشتر متأثر از موقعیت استقرار آن بوده و کمتر از الگوی برنامه ریزی شده پیروی کرده است. ۲٫ الگوی توسعه فیزیکی شهر رامشیر از نظام سلسله مراتبی مناسب خدماتی پیروی نمیکند. ۳٫ توسعه فیزیکی شهر رامشیر از قیمت زمین در حاشیه شهر نیز پیروی کرده است. با بررسی انجام شده مشخص شد سه فرضیه فوق صحیح میباشند و همچنین مشخص شد که در دهه ۱۳۴۰ الگوی شکل شهر بصورت هستهای متمرکز در جوار رودخانه جراحی قرار گرفته بود و در سالهای بعد از آن به علل خاصی شهر از الگوی هستهای خارج و الگوی رشد خود را بصورت خطی ادامه داده است. همچنین به این نتیجه رسیده است که با توجه به شکل خطی شهر رامشیر و مشکل رفت و آمد بسیار شهروندان به مرکز شهر و هزینه های مالی و زمان، که بر این شهروندان دارد و اینکه از گسترش شهر جلوگیری شود، به نظر میرسد ترکیب الگوی مراکز خطی چند هستهای از راه حلهای مناسب باشد. طاهری در پایان نامۀ کارشناسی ارشد خود به ارزیابی الگوی توسعۀ فیزیکی شهر رامشیر و مشکلاتی که برای شهروندان ایجاد کرده، پرداخته و در پایان یک الگوی مناسب عرضه کرده است. (طاهری: ۱۳۸۱، ارزیابی الگوی توسعه فیزیکی شهر رامشیر و ارائه الگوی مناسب آن، پایان نامه کارشناسی ارشد جغرافیا). عبدالامیر با بهره گرفتن از رویکرد ارزیابی چندمعیاری (MCE) در محیط سیستم اطلاعات جغرافیایی (ساج- gis) و با هدف شناخت نواحی اولویت دار و مناسب جهت توسعۀ کالبدی برای استفادۀ برنامه ریزان شهری و تصمیم گیرندگان فضایی، به بررسی و تحلیل تناسب زمین برای توسعۀ کالبدی در محور شمالغرب شیراز پرداخت. (عبدالامیر، ۱۳۸۴ :۹۳-۱۰۶).
موسوی در سال ۱۳۸۴ نقش عوامل جغرافیایی را در توسعه کالبدی-فیزیکی شهر ایذه مورد مطالعه قرار داد و به این نتیجه رسید که شهر ایذه دارای فرمی شعاعی بوده و عوامل جغرافیایی (انسانی و طبیعی) در توسعه کالبدی شهر نقش مؤثری داشته اند. همچنین بهترین جهت برای توسعه فعلی شهر را قسمت های غربی شهر دانسته و در بخش پایانی عملکرد طرح جامع را در هدایت توسعه شهر مثبت ارزیابی کرده است. موسوی:۱۳۸۴، نقش عوامل جغرافیایی در توسعه کالبدی فیزیکی شهر ایذه، پایان نامه کارشناسی ارشد
عباسپور و همکاران (۱۳۸۴) به عرضۀ مدلهای توسعه شهری، با کاربرد سامانه های GIS و RS و مدلهای زیست محیطی پرداختند. در این مقاله، با توجه به انواع عملکردهای شهری، با ملاحظۀ دیدگاه توسعه پایدار، توجه ویژه ای به ظرفیتهای طبیعی منطقه از دیدگاه بوم شناختی و زیست محیطی شده و مدلهای مناسب برای توسعه شهری در ایران و قابل استفاده در سامانه های اطلاعات مکانی، با درنظرگرفتن ملاحظات و استانداردهای محیط زیست، عرضه شده است. (عباسپور و همکاران، ۱۳۸۴: ۵۴-۶۱). پورمحمدی در مقاله ای تحت عنوان ارزیابی گسترش فضایی _ کالبدی شهر تبریز با تأکید بر تغییر کاربری زمین طی دورۀ ۱۳۸۴-۱۳۵۵، به پیش بینی و نمایش دینامیسم های زمانی و فضایی – کالبدی گسترش شهر تبریز در مقیاسهای متفاوت پرداخته است. (پور محمدی و همکاران، ۱۳۸۷ : ۲۹-۴۶).
فرج زاده و فلاح (۱۳۸۷)، در پژوهشی به ارزیابی تاثیر تغییرات کاربری و پوشش اراضی بر رژیم سیلابی رودخانه تجن با بهره گرفتن از تکنیک سنجش از دور پرداختند و به این نتیجه رسیدند که افزایش رواناب بیشتر بدلیل کاهش جنگل و مرتع بوده که در این میان نوع خاک نیز آنرا تشدید نموده است و عوامل آب و هوایی تاثیر قابل توجهی در آن نداشته است.
علی نژاد طیبی در سال ۱۳۸۹ به بررسی روند توسعه کالبدی–فیزیکی شهر فیروز آباد پرداخت، وی پژوهش خود را با این دو فرضیه شروع کرد: ۱- به نظر میرسد طرح جامع شهر در جهت دهی توسعه فیزیکی شهر، نقش عمدهای را ایفا کرده است. ۲- به نظر میرسد توسعه فیزیکی شهر با گسترش تجهیزات شهری هماهنگ نبوده است. و با بررسیهای که انجام داد، مشخص شد که هر دو فرض درست بوده است. و همچنین به این نتیجه رسیده است که، روند توسعه فیزیکی شهر در گذشته معلول عوامل مختلفی از جمله اسکان عشایر و اتصال روستاهای اطراف به شهر، روند رشد طبیعی شهر و… بوده است. و بافت فعلی شهر فیروزآباد را از نظر گونه شناسی از نوع هستهای و متمرکز میداند. وی همچنین با بهره گرفتن از مدل AHP و در محیط نرم افزار ArcGIS و با بررسی لایه های مختلفی مثل کاربری زمین، شیب، جهت شیب، توپوگرافی، رودخانه، آثار باستانی، جاده، گسل و فاصله روستاهای اطراف با شهر، پیش بینی کرده که گسترش شهر در آینده به صورت خطی و در امتداد ارتفاعات نزدیک شهر و به طرف شرق و شمال شرقی صورت میپذیرد. (علی نژاد طیبی:۱۳۸۹، تحلیلی بر روند توسعه کالبدی – فیزیکی شهر فیروزآباد، پایان نامه کارشناسی ارشد جغرافیا).
۵-۱- اهداف تحقیق
هدف اصلی از این مطالعه ارزیابی گسترش شهر بندرترکمن از سال های ۱۳۶۶ تا ۱۳۹۱و پیش بینی چگونگی گسترش آن تا سال ۱۴۰۴ و در نهایت ارائه الگویی مناسب برای مکانیابی بهترین جهات گسترش شهر بندرترکمن با بهره گرفتن از داده های سنجش از دور (RS)[4] وسیستم اطلاعات جغرافیایی (GIS)می باشد.
۱-بررسی موانع توسعه و تعیین جهت های گسترش شهر بندرترکمن
۲-ساماندهی توسعه فیزیکی شهر بندرترکمن به منظور جلوگیری از پیامدهای منفی آن(تخریب اراضی کشاورزی،هزینه بالای زیرساخت های شهری و…
۳- ایجاد شرایطی برای گسترش مناسب و معقول به منظور حفظ منابع بالفعل یا بالقوۀ محیطی شهر بندرترکمن.
۴- بررسی روند گسترش شهر بندر ترکمن.
نتایج این تحقیق الگویی روشن و منطقی در فهم مسائل پیچیده و در حال تغییر شهر ارائه میدهد، همچنین می تواند به عنوان ابزاری در اختیار مدیران و برنامه ریزان مرتبط با امور شهری قرار گیرد تا ضمن آگاهی از مسائل و مشکلات موجود و پیش روی توسعه شهر بندرترکمن، با بهره گرفتن از راهبردهای اجرائی و الگوی ارائه شده توسعه کالبدی – فیزیکی شهر را در جهاتی بهینه هدایت کنند. بنابراین کاربردها را می توان چنین صورت بندی کرد:
به عنوان یک منبع در تهیه طرحهای شهری مانند طرح جامع طرح تفصیلی و…
در این پژوهش نوع تحقیق کاربردی است و روش آن توصیفی- تحلیلی است.
هدف اصلی از این مطالعه ارزیابی گسترش کالبدی شهر بندرترکمن طی سال های۱۳۹۱-۱۳۶۶ و پیش بینی چگونگی گسترش آن تا سال ۱۴۰۴ و در نهایت ارائه الگویی مناسب برای مکانیابی بهترین جهات گسترش شهر بندرترکمن، با بهره گرفتن از داده های سنجش از دور(RS ) وسیستم اطلاعات جغرافیایی (GIS)می باشد. منبع اصلی داده ها RS، تصاویر ماهواره ای لندست)ETM1366،۱۳۷۸، ۱۳۹۱) می باشد که پس از اعمال تصحیحات رادیومتری و هندسی مورد استفاده قرار گرفت. با توجه به اهداف این تحقیق، ابتدا نقشه ی کاربری زمین در دوره ی زمانی مورد مطالعه، با بهره گرفتن از مدل FUZZY ARTMAP تهیه شد.سپس تغییرات کاربری ها در طی مدت مورد مطالعه با بهره گرفتن از مدل LCM محاسبه گردید. سپس با توجه به روند کنونی رشد فیزیکی شهر برای پیش بینی گسترش شهر تا سال ۱۴۰۴ از مدل CA-MARKOV استفاده گردید.سپس با انتخاب معیارهای لازم جهت تعیین گسترش بهینه ی شهر و به کمک مدل ANP بهترین مکان، مشخص و پیشنهادات لازم ارائه گردید.
هر تحقیق علمی با توجه به موضوع تحقیق، زمان تحقیق، محدوده مورد مطالعه و مسایلی از این قبیل با مشکلاتی مواجه است. از جمله مهمترین مشکلاتی که از شروع کار تا تدوین نهایی رساله، نگارنده با آن مواجه بوده عبارتند از:
استفاده در الکترونیک و تجهیزات انرژی باتریها: بخاطر تخلخل باﻻی اکسید ایروژلها، بسیاری از یونهای کوچک می تواند در شبکه آنها قرار گیرد. علاوه بر این، این دسته ازایروژلها عایق های حرارتی خوبی هستند که میتوانند در باتریهای الکتریکی با حرارت باﻻ استفاده شوند.
الکترود خازن: ایروژلها به عنوان الکترود دوﻻیه ای در ابر خازنها کاربرد دارند. آنها مقاومت الکتریکی کمی در حد ۳ تا ۱۰ اهم دارند. ظرفیت ویژه کربن ایروژلهای مشتق شده ازایروژلهای رزورسینول- فرمالدهید حدود ۴۵ فاراد بر گرم در هر الکترولیت آبی است.
ذخیره کننده انرژی: ایروژلها با دارا بودن مساحت داخلی باﻻ میتوانند بارهای الکتریکی یونها را به سرعت در فضای کوچک ذخیره کنند و به سرعت آنها را آزاد کنند.
استفاده در صفحه نمایش: ایروژلها بر پایه مغناطیسهای شفاف میتوانند در ساخت حافظههای غیرفعال یا در ساخت صفحه نمایشهای تخت که پیکسل آنها به صورت مغناطیستی کنترل می شود، استفاده شوند.
به عنوان نیمه هادی: برخی ازایروژلها مخصوصا ایروژلهایی از نوع کامپوزیتهای فلزی- کالکوزیت[۲۰] در صنعت نیمه هادی می توانند کاربرد داشته باشند.
به عنوان حامل مواد مختلف: ایروژلها می توانند به عنوان حامل ترکیبات مختلف برای مثال رنگدانهها در داروسازی و کشاورزی استفاده شوند.
کاربرد ایروژل در کاتالیستها: ایروژل های سیلیکا و آلومینا به عنوان کاتالیست در واکنش های آلکیله کردن فریدل کرافتس[۲۱] بکار میرود. مثالهای متعددی از این دسته می تواند ذکر شود.
حسگر: ایروژلها به خاطر داشتن مساحت سطح داخلی باﻻ میتوانند در ساختار سنسورهای شیمیایی زیستی به کار گرفته شوند. همچنین باعث افزایش سطح فعال و حساسیت حسگر میشوند.
ضربه گیرها: شکنندگی ایروژل از معایب این مواد در کاربردهای مهندسی و ساختمانی میباشد. این خاصیت ایروژلها در جذب انرژی سنتیکی بسیار عالی است و در کاربردهای مانند ضربه گیر مفید است (Aegerter and Leventis, 2011).
آلومینا ایروژل که از اکسید آلومینیوم(Al2O3) تشکیل شده است از جمله ایروژلهای معدنی است. آلومینیوماکسید در فرم های مختلف α, χ, η, δ, κ, θ, γ, ρ وجود دارد که در طول حرارت دادن به هیدروکسیدآلومینیوم بدست می آیند. فرم پایدار آلومینا، آلفا آلومینا هست که در مرحله آخر حرارت دادن بدست می آید. ایروژل آلومینا بیشترین کاربرد را به عنوان پایه کاتالیست دارد به خصوص وقتی که با فلزی مثل نیکل ترکیب شود. در بین صدها پایه کاتالیست، آلومینا به علت مقاومت گرمایی، پایداری شیمیایی و تخلخل بالا مورد توجه است (Abu-Jdayil et al., 2012).
یک سیال فوق بحرانی ترکیبی است که بیش از دما و فشار بحرانی اش(Tc ,Pc) فشرده و گرم شدهاست. سیال فوق بحرانی نه گاز است و نه مایع و بهتر است که به عنوان حد واسط دو فاز معرفی شود. این فاز دارای قدرت حلالیتی در حدود مایع است در حالی که خصوصیات انتقال معمول در گازها را دارا می باشد. ویسکوزیته پایین سیال فوق بحرانی به همراه قدرت نفوذ بالای آن همراه با نیروی شناوری بسیار زیاد که سبب دانسیته بسیار بالایی در فصل مشترک می شود سبب بروز خصوصیات انتقال جرم بهتر این سیال در مقایسه با حلالهای معمولی می شود .رفتار حلالیت سیال به فاز مایع نزدیک است و این در حالی است که نفوذ در جامد به وسیله خصوصیات انتقالی مشابه گاز سیال فراهم می شود .در نتیجه سرعت استخراج و جداسازی فازی می تواند به طور قابل ملاحظهای سریع تر از حالتی گردد که فرایند استخراج به طور معمول صورت میگیرد. نکته قابل توجه این است که کشش سطحی یک SCF[22]صفر میباشد. این امر رسیدن به اعماق سوراخهای ریز روی یک ماده جامد را تسهیل می کند. از مزایای اصلی استخراج SCF آن است که حلالیت جزء حل شده در یک حلال با دما و فشار تغییر می کند. حلالهایی که به عنوان سیال فوق بحرانی به کار میروند باید خصوصیاتی از جمله : حلالیت خوب، بی اثر بودن بر محصولات، غیر سمی بودن، خورنده نبودن، جداسازی آسان از محصولات، ارزان بودن و فشار بحرانی پایین - به دلیل مقاصد اقتصادی- را دارا باشند. سازگاری با محیط زیست علاوه بر شرایط مذکور، یک سیال فوق بحرانی را مورد توجه قرار میدهد که در این میان CO2قابل ملاحظه است. علت این امر آن است که دارای ثوابت بحرانی قابل دسترسی (Tc=31/1, Pc=73/8 atm) است، علاوه بر آن ترکیبی ارزان قیمت، از لحاظ شیمیایی پایدار، بی اثر و غیر قابل اشتعال، در کاربردهای اشعه ای پایدار و غیر سمی، از نظر زیست محیطی قابل پذیرش و به سهولت به سیستم باز گردانده می شود (Reverchon et.al, 1999).
در سال ۱۸۲۲ بارون به نقطه بحرانی یک ماده در آزمایشگاه پی برد. او مشاهده کرد که با گرم کردن یک ماده در یک ظرف بسته و شیشه ای در یک دمای مشخص مرز بین فاز گاز و مایع ناپدید می شود و ماده وارد فاز متفاوتی از مایع و گاز که همان فوق بحرانی است می شود. بعد از بارون در سال ۱۸۷۹ هانای و هوگارت اولین کسانی بودند که به قدرت انحلال سیالات فوق بحرانی برای جامدات پی بردند. آنها متوجه شدند که افزایش فشار سیال فوق بحرانی باعث افزایش انحلال حل شونده و کاهش فشار باعث می شود که مواد حل شونده رسوب کنند.
تا سال ۱۹۰۶ محققان فکر میکردند که فقط مایعات در حالت فوق بحرانی حلال خوبی هستند و گازها نمی توانند حلال مواد جامد باشند. اما در سال ۱۹۰۶ بوچنر انحلال نفتالین به عنوان یک ماده نمونه در کربن دی اکسید فوق بحرانی را اندازه گرفت و خلاف این باور را به اثبات رساند. در سالهای بعد سیال فوق بحرانی به خصوص کربن دی اکسید فوق بحرانی کاربردهایی در جداسازی و استخراج پیدا کرد اما چندان مورد توجه نبود. در سال ۱۹۷۰ پیشرفت قابل توجهی در استخراج به وسیله سیال فوق بحرانی توسط زوسل انجام شد و کار او انگیزه ای برای پیشرفت و مطالعه گسترده در آینده شد. او به کمک کربن دی اکسید فوق بحرانی کافئین را از قهوه سبز جدا کرد. از سال ۱۹۸۰ تا کنون مقالات متعددی روی سیال فوق بحرانی و کاربرد آن توسط محققان به چاپ رسیدهاست.
سیالات فوق بحرانی در صنایع شیمیایی به دو صورت حلال و محیطی برای انجام واکنش استفاده میشوند. از جمله کاربردهای سیالات فوق بحرانی به عنوان حلال، میتوان به استخراج قیر از سنگ نفت زا، استخراج مواد پایه رنگ و استخراج مشتقات نیتروفنل به وسیله دی اکسیدکربن فوق بحرانی اشاره کرد. به علاوه بسیاری از واکنشهای هیدروژناسیون درمحیط آب فوق بحرانی قابل انجام است.
تولید انرژی به وسیله اکسیداسیون زغال سنگ در آب فوق بحرانی یکی از روش های تولید انرژی است.
تجزیه آنیلین در آب فوق بحرانی: آنیلین یک ماده سمی است که به طور گسترده در صنایع شیمیایی، لاستیک، پلاستیک و صنایع دارویی به عنوان یک ماده اولیه استفاده می شود.
استخراج مواد شیمیایی به وسیله دی اکسید کربن فوق بحرانی، مانند استخراج دی اتیل آمونیوم کربامیت یکی از کاربردهای سیالات فوق بحرانی در صنایع شیمیایی است.
سیالات فوق بحرانی نسبت به حلالهای مایع از مزایای زیادی برخوردارند. از جمله این مزایا میتوان به موارد زیر اشاره کرد:
فرایند استخراج بیشتر سیالات فوق بحرانی در دمای پایین انجام می شود. بنابراین، این فرایند برای مواد حساس به دما مناسب است.
در فرایند سیالات فوق بحرانی حلال به طور کامل از محصول قابل بازیابی است و به دلیل کاهش مصرف حلال و استفاده مجدد از آن، از نظر اقتصادی با صرفه است.
عدم حضور حلال در محصول نهایی که باعث بالا رفتن کیفیت محصول نهایی می شود.
وجود این مزایا سبب کاربرد گسترده سیال فوق بحرانی در صنایع غذایی شده است که در زیر به بعضی از آنها اشاره می شود:
استخراج کلسترول (C27H45OH) از چربی گاو به وسیله دی اکسیدکربن فوق بحرانی،
که مقدار کلسترول استخراج شده با افزایش فشار یا افزایش شدت جریان، CO2 افزایش می یابد.
استخراج روغن زرده تخم مرغ به وسیله دی اکسید فوق بحرانی
پودر کردن روغن نارگیل به وسیله دی اکسیدکربن فوق بحرانی نیز یکی دیگر از کاربردهای سیالات فوق بحرانی است که به فرایند انبساط سریع محلول فوق بحرانی[۲۳] مربوط می شود.
استخراج اسیدهای چرب از روغن سویا
یکی از جدیدترین کاربردهای سیالات فوق بحرانی, استفاده از آنها به منظور بلورسازی مواد است.
خواصی مانند انتقال جرم، زمان استخراج کم وجداسازی آسان حلال از مواد استخراج شده باعث شده که سیالات فوق بحرانی در صنایع نفت و پتروشیمی کاربرد زیادی داشته باشند. از سیالات فوق بحرانی برای استخراج بسیاری از ترکیبات نفتی مانند پارافین ها, آروماتیک ها و ترکیبات گوگردی استفاده می شود. همچنین از سیالات فوق بحرانی برای تبدیل ترکیبات سنگین نفتی به ترکیبات سبکتر و برای بازیابی بسیاری از کاتالیستهای غیرفعال شده استفاده می شود (احمدپناه، ۱۳۹۲).
در صنایع پلیمر توزیع اندازه ذرات پلیمر تولید شده بسیار مهم است. در روشهای معمول برای تغییر توزیع اندازه، ذرات را خرد می کنند یا می سایند، اما بسیاری از مواد را نمی توان به آسانی توسط فرایند خرد کردن به اندازه دلخواه درآورد. یکی از روش ها برای تولید پلیمر با توزیع اندازه مطلوب روش باز تبلور است. از سیالات فوق بحرانی می توان برای گستره وسیعی از مواد به عنوان عامل باز تبلور استفاده کرد. چندین روش برای استفاده از سیالات فوق بحرانی در باز تبلور مواد جامد پلیمری وجود داردکه فرایندگاز ضد حلال و فرایند انبساط سریع محلول فوق بحرانی از جمله آنهاست. کاربرد دیگر سیالات فوق بحرانی در صنایع پلیمر، جداسازی منومر از پلیمر است. پودر کردن پلی اتیلن گلیکول به وسیله دی اکسیدکربن فوق بحرانی نیز یکی دیگر از کاربردهای سیال فوق بحرانی در صنایع پلیمر است (احمدپناه، ۱۳۹۲).
فصل دوم
یلداس در سال ۱۹۷۳ برای اولین بار هیدرولیز الکوکسیدآلومینیوم با آب را در دماهای مختلف انجام داد و تاثیر آن را روی تغییر شکل و ساختار هیدروکسیدهای بدست آمده بررسی کرد. یلداس به این نتیجه رسید که هیدرولیز الکوکسید آلومینیوم با آب داغ منوهیدروکسیدهای شفاف[۲۴] با فرمول شیمیایی AlO(OH) را نتیجه می دهد در حالی که از هیدرولیز با آب سرد منوهیدروکسید بی شکل[۲۵] بدست می آید. در طول فرایند پیرسازی منوهیدروکسیدهای بی شکل به تری هیدروکسید[۲۶] با فرمول شیمیایی Al(OH)3 تبدیل می شوند (Yoldas, 1973).
در سال ۱۹۷۵ یلداس به بررسی تاثیر غلظت الکترولیتها روی حجم ژل آلومینای سنتز شده طی فرایند سل- ژل پرداخت. او به این نتیجه رسید که وقتی غلظت الکترولیت تقریبا ۰۷/۰مول به ازای هر مول هیدروکسید باشد حجم نسبی ژل به سمت کمترین مقدار خود میرود. نمودار ۲-۱ تاثیر غلظت الکترولیت روی حجم ژل را نشان می دهد که از یک اسید معدنی و یک اسید آلی به عنوان الکترولیت استفاده شده است (Yoldas, 1975).
نمودار۲-۱: حجم ژل بر حسب نسبت مولی اسید به هیدروکسید (Yoldas, 1975)
در سال ۱۹۸۷ آرمور و همکارش با هیدرولیز آلومینیوم ایزوپروپکساید[۲۷](AIP) به عنوان پیش ماده و استفاده از متانول به عنوان حلال، ژل آلومینا را سنتز و در شرایط فوق بحرانی متانول خشک کردند. آنها سنتز ژل را در شرایط مختلف انجام دادند و نشان دادند که نسبت حجمی آب به الکل و غلظت AIP در محلول اولیه از جمله پارامترهای موثر بر مساحت سطح و حجم حفرهها هستند (Armor and Carlson , 1987).
بلکریشنان و همکارش در سال ۱۹۹۳ کاتالیست پلاتین بر پایه ایروژل و زیروژل آلومینا را تهیه کردند و تاثیر متغییرهایی چون نسبت آب به الکوکسید فلز و pH محلول اولیه را روی ویژگیهای فیزیکی پایه کاتالیست بررسی کردند. آنها نشان دادند وقتی نسبت مولی آب به پیش ماده برابر با ۳ باشد بیشترین مساحت سطح حاصل خواهد شد و بیان کردند که تغییر pH تاثیری روی میانگین اندازه حفرههای ایروژل ندارد اما مقدار مساحت اندازه گیری شده به کمک جذب نیتروژن در pH های متفاوت تغییر می کند (Balakrishnan and Gonzalez, 1993).
میزوشیما و همکارش در سال ۱۹۹۳ تاثیر چندین افزودنی به ایروژل آلومینا را برای افزایش مقاومت حرارتی بررسی کردند. سیلیکا، فسفریک اسید، اکسید باریم، اکسید لانتانیم و کاربید سیلیسیم[۲۸] در حفظ سطح ویژه ایروژل آلومینا در دماهای بالاتر از ۱۲۰۰ درجه سانتی گراد موثر بودند. در واقع این مواد، به ویژه سیلیکا از انتقال فاز آلومینا از آمورف به فازهای تتا و آلفا آلومینا جلوگیری می کنند (Mizushima and Hori, 1993).
میزوشیما و همکارش در سال ۱۹۹۴ ژل آلومینا را با هیدرولیز آلومینیوم سک بوت اکساید و عامل ژل ساز اتیل استو استات سنتز نموده و در شرایط مختلف خشک کردند. در روش اول ژل آلومینای خیس در شرایط فوق بحرانی مخلوط کربن دی اکسید و اتانول و در استخراج کننده کربن دی اکسید در دمای ۸۰ درجه سانتی گراد و فشار ۷/۱۵ مگاپاسکال خشک شد. در روش دوم ژل آلومینا در شرایط فوق بحرانی اتانول، دمای ۲۷۰ درجه سانتی گراد و فشار ۵/۲۶ مگاپاسکال، در اتوکلاو خشک شد. برای روش سوم از خشک کردن ژل با بهره گرفتن از تبخیر در دما و فشار محیط استفاده کردند و ژل خیس را به مدت یک ماه در معرض محیط قرار دادند. در جدول ۲-۱ مشاهده می کنید مساحت ویژه، چگالی و مواد آلی باقی مانده برای این سه روش باهم مقایسه شد (Mizushima and Hori, 1994).
جدول ۲-۱: مقایسه خواص ژل خشک شده به سه روش مختلف (Mizushima and Hori, 1994)
بسیار پایین
ایمنی دوچرخه سوار
بسیاربالا
پایین
بسیاربالا
پایین
احترام به حقوق دوچرخه سوار
۸۰-۷۰
۵۵-۱۰
۸۰-۷
۴۵-۱۰
متوسط سن دوچرخه سواری
بسیاربالا
پایین
بسیاربالا
پایین
شاخص کمی امکانات
بسیاربالا
پایین
بسیاربالا
بسیار پایین
شاخص کیفی امکانات
۲-۱۲-۱-سیاست های گردشگری با دوچرخه در کشور هلند
در کشور هلند به علت وجود رودها کانال ها برکه ها و دریاچه و فضاهای آبی زیاد و همچنین مناطق جنگلی و روستایی که همگی دارای چشم اندازهای طبیعی با جذابیت بالا هستند دولت و وزارت گردشگری هلند در جهت انجام تبلیغات گسترده در جهت جذب گردشگران در این زمینه سرمایه گذاری و تلاش زیادی انجام داده اند. از طرف دیگر وجود مزارع گلهای تزینی زیبا و رنگارنگ در کشورهلند همچنین وجود آسیاب های بادی معروف که نماد این کشور هستند و اجرای برنامه های گردشگری[۹۹] مزرعه کمک بسیار زیادی به رونق گرفتن گردشگری طبیعت گردی در این کشور کرده است.(www.Holland.nl)
از جدیدترین برنامه های اجرا شده توسط دولت هلند که با همکاری بخش خصوصی در حال اجراست برنامه(B&B) جدیدی است که این بار به جای آنکه در برنامه ای متداول (Bed & Breakfast) جای خواب و صبحانه ارائه شود در اینجا جای خواب و دوچرخه (Bed & Bikes) ارائه می گردد. این برنامه توسط مدارس و دانشگاه های کشور هلند مورد حمایت قرار گرفته است تا دانش آموزان و دانشجویان بتوانند در طول تعطیلات آخر هفته و تعطیلات تابستانه با انجام سفر های کم هزینه به گشت و گذار در طبیعت هلند بپردازند. به علت ایجاد یک فرهنگ یکپارچه دوچرخه سواری درکشور هلند در طول تعطیلات آخر هفته خانواده ها و یا گروه های دوستان بصورت گسترده با همدیگر به گردشگری با دوچرخه به صورت خانوادگی و گروهی می پردازند که اغلب در مناطق طبیعی و در حاشیه رودها و دریاچه ها انجام می شود. مسیر های دوچرخه سواری هلند به گونه ای طراحی و مهندسی شده اند که از مکان های سر سبز و با پوشش درختی عبور می کنند دلیل این نوع طراحی مسائل آب و هوایی است به نحوی که در طول روز وجود سایه درختان از آفتاب سوختگی و گرم شدن و تعرق زیاد در دوچرخه سواران جلوگیری می کند، در حین بارندگی هم از خیس شدن دوچرخه سواران جلوگیری می نماید(همان منبع).
کشور هلند از اوایل دهه ۱۹۸۰ با یک برنامه ریزی بلند مدت و با انجام تبلیغات و بازاریابی مناسب برای جذب گردشگران خارجی برای انجام فعالیت های ورزشی همچون دوچرخه سواری و انجام قایق سواری، موج سواری و دیگر ورزش های آبی سرمایه گذاری های وسیعی را انجام داده است. برخی از قوانین کار که در اواخر دهه ۱۹۹۰ در کشور هلند تصویب شد تأثیر بسیار بالایی بر روی میزان اوقات فراغت و ساعت های غیر کاری افراد در هلند داشته اند، قوانینی همچون دور کاری و کار در خانه و امکان انجام کارهای پاره وقت در هلند باعث شده هلند دارای بالاترین سرانه اوغات فراغت در میان کشورهای اروپایی گردد که خود تأثیر زیادی در گرایش افراد به انجام فعالیت های سرگرم کننده و تفریحی ورزشی همچون گردشگری با دوچرخه داشته است.
وجود مسیر های مخصوص دوچرخه سواری کشور هلند را به بهترین و امن ترین کشور جهان برای دوچرخه سواری بدل کرده است زیرا این کشور به لحاظ میزان حمایت و دوستدار دوچرخه بودن در بالاترین سطح در جهان قرار دارد.در شهر آمستردام حدود ۴۰۰ کیلومتر فضای مخصوص دوچرخه سواری وجود دارد و گردشگران می توانند با بهره گرفتن از مسیر های طراحی شده بدون استثنأ از تمامی مناطق شهر دیدار کنند. دولت هلند برای حمایت از دوچرخه سواران با نصب علایم راهنمایی و رانندگی و تابلوهای بزرگی که مسیر های دوچرخه سواری را به خوبی نشان می دهند که"knooppuntrottes” نامیده می شوند فاصله شهر ها و روستاهای همجوار را به خوبی مشخص نموده تا گردشگران هم به راحتی مسیر خود را پیدا کرده و هم اینکه راه بازگشت را به راحتی پیدا کنند.( www.wiekipwdia.org)
دولت هلند با کمک افراد محلی به خصوص کشاورزان دست به احداث مراکز کمپینگ گسترده ای در تمام نقاط روستایی و ویلایی کشور هلند زده است، اغلب این مراکز به گونه ای طراحی شده اند که بهترین وسیله برای دسترسی به آنها دوچرخه است. البته لازم به ذکر است در کشور هلند امکان بردن دوچرخه به داخل قطارهای شهری و برون شهری و بسیاری از اتوبوس ها وجود دارد که فقط در بعضی از زمان های خاص و ترافیکی در طول سال بردن دوچرخه به داخل این گونه وسایل با محدودیت ها همراه است. این قابلیت به گردشگران و طرفداران دوچرخه سواری این امکان را می دهد تا بتوانند در نقاط مختلف با حمل دوچرخه به مکان های دیگر از آن استفاده کنند (همان منبع)
شکل (۲-۹) سیاست های حمایتی دولت هلند از گردشگری و استفاده دوچرخه
شکل (۲-۱۰) تغییرات سیستم حمل و نقل در گذر زمان در کشورهای شرقی وغربی جهان از چپ به راست
۲-۱۳-گردشگری با دوچرخه بر سر چهار راه گردشگری
از آنجایی که ماهیت رشته جهانگردی علمی بین رشته ایست و در ارتباط تنگاتنگ با دیگر رشته هاست و مباحث مطرح در آن چند بعدی هستند موضوع این تحقیق هم به تبع با ابعاد اقتصادی، فرهنگی، ورزشی، تاریخی، جغرافیایی و زیست محیطی در ارتباط است. از همین رو گردشگری با دوچرخه در چند بعد قابل بررسی است و در دسته بندی های موجود هم یک شکل از حمل و نقل است و هم یک ورزش و در بعد گردشگری بر سر چهار راهی از چند نوع گردشگری قرار دارد، هم گردشگری ورزشی هم در قالب اکوتوریسم هم گردشگری هیجانی و گردشگری سرشار از فعالیت و هم گردشگری شهری است از این رو در این بخش از پایان نامه به بررسی گردشگری با دوچرخه با ابعاد برشمرده شده در بالا می پردازیم (استراتن,۲۰۰۹, ۱۰۲).
شکل (۲-۱۱) گردشگری با دوچرخه بر سر چهاراه گردشگری
۲-۱۳-۱-پتانسیل های گردشگری با دوچرخه در شهر اصفهان در قیاس با شهر آمستردام
df
۴
Asymp. Sig.
.۰۰۰
a. Friedman Test
Abstract
The aim of this research, recognizing the role of spirituality in the workplace on quality of service Iran Insurance Company policyholders. Population statistical are Iran Insurance Company’s policyholders, employs and agents in the Esfahan.
The research method is descriptive – Causal and hypothesis test with regression method and is carried out using SPSS version 19. The results of descriptive statistics which splits the sample members in terms of age, gender, education level and work experience mentioned and inferential statistics were presented in detail in this section, test results Kalmovgrof – Smirnow showed that the distribution of variable data is abnormal.
Regression showed that the spirituality has a significant effect on increase the quality of service and them dimension. The Friedmen test indicated that accountability dimension then other aspects of the quality of service has a higher average. Finally, based on the test results were presented suggests to Iran Insurance Company.
Keywords: Spirituality , Quality of service, Iran Insurance Company
Islamic Azad University of Naragh
A thesis submitted in partial fulfillment of the requirements for degree of master of Arts (M.A)
Discipline and Tendency:
Business Management – Insurance Management
Title:
The Role of Spirituality in the Workplace on Quality of Service Iran Insurance Company Policyholders
Thesis Advisor:
Dr. Mohammad Reza Asgary
By :
Gholam Reza Dehghanzadeh
January 2015